Top Local Places

Ali Shahnawaz, a human rights activist, endears Kashmiris’ struggle.

Østre Aker Vei 205, Oslo, Norway
Political Organization

Description

ad

He is the Executive Director of Kashmiri Scandinavian Council,Oslo.Promoting the noble cause of Kashmir and seeking your support for his mission, pl share this page with others.  

CONTACT

RECENT FACEBOOK POSTS

facebook.com

Boycott PTM

Boycott PTM
facebook.com

AJK Television

AJK Television
facebook.com

- Vi er svært bekymret for våre prismottakere i Kashmir

facebook.com

Article 370: Pakistan calls back high commissioner, expels Indian envoy, suspends bilateral trade

facebook.com

Ali Shahnawaz Khan on Twitter

facebook.com

Ali Shahnawaz Khan on Twitter

facebook.com

Ali Shahnawaz Khan on Twitter

facebook.com

Ali Shahnawaz Khan on Twitter

facebook.com

Imran Haider Videos

Imran Haider Videos
facebook.com

facebook.com

نقطہ نظر/سردارعلی شاہنواز خان پری مون سون کا جھٹکا۔ مون سون میں کیا ہو گا؟ Bukhari جولائ 16, 2019 0 تبصرے خبر ہے کہ وادی نیلم میں سیلابی ریلے کے نیتجے میں22افراد لاپتہ جبکہ کئی زخمی ہو گئے ہیں،135مکانات اور تین مساجد کو نقصان پہنچا ہے۔اس کے علاوہ چھ پن چکیاں بھی مکمل تباہ ہوئی ہیں جبکہ چھ گاڑیاں اور دس موٹر سائیکلیں سیلابی ریلے میں بہہ گئیں ۔ سٹیٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (SDMA) کے مطابق بادل پھٹنے کے بعد لیسوا گاں سے گزرنے والے پہاڑی نالے میں طغیانی آئی۔ پری مون سون کی بارشوں میں یہ سانحہ پیش آیا ابھی مون سون شروع ہونا باقی ہے۔متعلقہ ادارے (ایس ڈی ایم اے ، محکمہ موسمیات اور حکومت) اس سانحے کو قدرتی آفت کہہ کر اپنی ذمہ داری سے براہ ہونے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ اس سانحے کو صرف قدرتی آفت کہہ کر امدادی کاروائیاں کرنے سے ذمہ داری پوری ہیں ہوتی بلکہ اس کی مکمل ذمہ داری محکمہ موسمیاتی تبدیلی (climate chage) اور سٹیٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (SDMA) پر آتا ہے۔ بی بی سی کے مطابق کلاڈ برسٹ یا بادل پھٹنے کا مطلب کسی مخصوص علاقے میں اچانک بہت کم وقت میں گرج چمک کے ساتھ بہت زیادہ اور موسلادھار بارش کا ہونا ہے جس کے باعث سیلابی صورتحال پیدا ہو جائے۔بادل پھٹنے کا واقعہ اس وقت پیش آتا ہے جب زمین یا فضا میں موجود بادلوں کے نیچے سے گرم ہوا کی لہر اوپر کی جانب اٹھتی ہے اور بادل میں موجود بارش کے قطروں کو ساتھ لے جاتی ہے۔اس وجہ سے عام طریقے سے بارش نہیں ہوتی اور نتیجے میں بادلوں میں بخارات کے پانی بننے کا عمل بہت تیز ہو جاتا ہے کیونکہ بارش کے نئے قطرے بنتے ہیں اور پرانے قطرے اپ ڈرافٹ کی وجہ سے واپس بادلوں میں دھکیل دیے جاتے ہیں۔ آج جب کہ ٹیکنالوجی کا دور ہے اور پاکستان میٹرولوجی ڈیپارٹمنٹ روزانہ کی بنیاد پر موسم کی اپڈیٹ دیتا ہے اور الرٹ بھی جاری کرتا ہے۔ مظفرآباد میں بھی موسمیات کا محکمہ ہے وہ کیا کر رہا ہے یہ پہلا سوال اٹھتا ہے؟ مظفرآباد محکمہ موسمیات نے الرٹ کیوں جاری نہیں کروایا؟ آج سوشل میڈیا کا دور ہے پیغام پہنچانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اگر سوشل میڈیا نہ ہو تو مساجد میں اعلان کروا کے الرٹ جاری کروایا جا سکتا تھا۔ لیکن محکمہ کی غفلت کی وجہ سے بڑے پیمانے پر نقصان سمیت کئی جانیں ضائع ہوئیں۔ معلوم ہوا ہے کہ اس علاقے میں موبائل سروس بھی نہیں ہے اور موبائل سروس نہ ہونے کی وجہ سیکورٹی وجوہات ہیں. کیا سیکورٹی کے نام پر لوگوں کو جدید سہولتوں سے محروم کرنا درست ہے؟ ایسی ہنگامی صورتحال میں موبائل سروس نہ ہونے کے باعث گھر سے باہر لوگ کس اذیت کا شکار ہوتے ہیں یہ وہی جانتے ہیں. علاقے کو موبائل سروس دی جانی چاہیے تاکہ وہاں کے لوگ اس ٹیکنالوجی سے استفادہ حاصل کریں. اس کے ساتھ محکمہ موسمیاتی تبدیلی کیوں سو رہا ہے وہ کلاڈ برسٹ کے حوالے سے تحقیق کیوں نہیں کر رہا؟ یکدم درجہ حرارت بڑھنے کی وجوہات پر کیوں کام نہیں کرتا؟ اس کے ساتھ حکومت آزاد کشمیر اور حکومت پاکستان سنجیدگی کے ساتھ اس خطے پر توجہ کیوں نہیں دیتیں؟ دریائوں کا رخ تبدیل ہونے سے جس طرح سے درجہ حرارت بڑھ رہا ہے بعید نہیں کہ یہ سارا علاقہ کسی روز اس طرح کے آبی ریلے کی نذر ہو جائے۔ پری مون سون کے اس سانحے کو صرف قدرتی آفت کہہ کر اپنی ذمہ داری سے بھاگنے کے بجائے حکوت بالخصوص متعلقہ اداروں کو تحقیقی کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مون سون میں کسی بھی بڑے سانحے سے بچا جا سکے۔

facebook.com

آزاد کشمیر کے وسائل پر کون کتنا اختیار رکھتا ہے ؟-سٹیٹ ویوز

نقطہ نظر/سردارعلی شاہنواز خان آزاد کشمیر کے وسائل پر کون کتنا اختیار رکھتا ہے ؟ Syed Waseem Abbas جولائ 11, 2019 0 تبصرے چند روز قبل کوہالہ پراجیکٹ کے حوالے سے ایک خبر نظروں سے گزری جس میں لکھا تا کہ ” چیف سیکرٹری کے ڈنڈے کے سامنے آزاد حکومت بے بس” ۔ یہ سرخی آزاد حکومت کی بے بسی کی علامت ہے۔ ایسے الفاظ حکومتی بے بسی کے ساتھ عوامی بے عزتی کا سبب بھی بنتے ہیں کیونکہ جن کو ووٹ دیکر منتخب کیا جائے ان کو ریاست کا ایک ملازم ڈنڈے کے روز پر سیدھا کرنے کی بات کرے تو عوامی رائے کی توہین ہوتی ہے۔ اس سرخی سے واضح ہوتا ہے کہ آزاد حکومت کتنی با اختیار ہے اور وسائل پر کس قدر حق رکھتی ہے۔ آزاد کشمیر میں وسائل کے اعتبار سے ہائیڈل (پانی ) پہلے نمبر پر ہے جس پر بجلی پیدا ہوتی ہے اور کئی علاقوں میں زراعت کیلئے یہ پانی استعمال ہوتا ہے۔ اگر ہم بجلی کی حد تک ہی بات کریں تو اس وقت آاد کشمیر2500 میگا واٹ کے قریب بجلی پیدا کر رہا ہے جس میں سے آزاد کشمیر کی ضرورت صرف 427 میگا واٹ ہے۔ اگر حکومت کو اس پر اختیار ہوتا تو اس بجلی سے بہترین زرمبادلہ حاصل کر سکتے تھے لیکن ایسا نہیں ہے۔ اس میں ریاست پاکستان سمیت آزاد حکومت کی بھی کوتاہی ہے۔ اگر پاکستان اور آزاد حکومت کے درمیان پانی کے معاملے پر معائدے دیکھیں معلوم ہوتا ہے منگلا ڈیم کیلئے ہونے والے معاہدے میں آزاد کشمیر کی نمائندگی چیف سیکرٹری آزاد کشمیر کر رہے تھے جو آزاد کشمیر میں پاکستان کا نمائندے کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اسی طرح نیلم جہلم پراجیکٹ مشرف دور میں شروع ہوا تو آزاد کشمیر کو اسٹیک ہولڈر جانے بغیر یہ منصوبہ مکمل کر لیا گیا۔ اس دوران مظفرآباد سے پانی کی کمی اور ماحولیاتی اثرات کے حوالے سے کئی آوازیں بھی سامنے آئیں جن کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا۔ اب کوہالہ پراجیکٹ بننے جا رہا ہے تو چیف سیکرٹری ماحولیاتی اثرات اور دیگر معاملات کو اہمیت دیے بغیر ڈنڈے کے زور پر تعمیر کروانے کی بات کر رہے ہیں۔ اس سے قبل فاروق حیدر کئی مرتبہ یہ دعوی بھی کر چکے ہیں کہ کوہالہ پراجیکٹ کو معاہدے کے بغیر شروع نہیں ہونے دیں گے۔ اب چیف سیکرٹری کی جانب سے ایسا بیان سامنے آنا جہاں حکومتی اہلیت پر سوال اٹھاتا ہے وہیں بیورو کریسی اور لینٹ افسران کی اجارہ داری کو سامنے لایا ہے کس طرح افسران حکومتی احکامات ماننے سے انکار کرتے ہیں( بیورو کریسی کی اجارہ داری پر پھر کبھی اظہار خیال کیا جائے گا)۔ ایک اور اہم بات آبی وسائل کے حوالے سے ہے کہ جب ڈیم آزاد کشمیر کی حدود میں بنائے جاتے ہیں اور گرڈ اسٹیشن پاکستان کی حدود میں ہوتا ہے تو اس میں آزاد کشمیر کو صرف واٹر یوز چارجز ہی ملتے ہیں اور رائلٹی اس صوبے کو ملتی ہے جس کی حدود میں گرڈ بنایا جاتا ہے اور آزاد کشمیر میں اب تک بننے والے ڈیمز اور زیر نظر منصوبوں میں سوائے نیلم جہلم کے تمام ڈیمز پنجاب یا خیبر پختونخواہ کی حدود میں ہیں جس سے آزاد کشمیر سالانہ اربوں روپے سے محروم رہے گا۔ وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ وفاق کو اس معاملے میں سوچنا چاہئیے اور آزاد کشمیر کو اس کے وسائل سے اس طرح سے محروم نہ کیا جائے ۔ اس سے قربت کے بجائے دوریاں پیدا ہوں گے جو کسی طور پاکستان کے حق میں نہیں ہے۔ اگر وسائل پر حق کو تسلیم کرتے ہوئے سیاسی قیادت کو فیصلے کرنے کا اختیار دیا جائے تو یہ بہترین عمل ہو گا اور اس سے آزاد کشمیر میں پایا جانے والا احساس محرومی بھی ختم ہو گا جو پاکستان کے حق بہتر ہوگا ۔اس لئے جہاں تیرہویں ترمیم کے بعد کچھ مالی اختیارات دئے گئے ہیں عمران خان آزاد کشمیر کے عبوری آئین میں ایک اور ترمیم کی منظوری دیتے ہوئے آزاد کشمیر کے وسائل پر آزاد کشمیر کے عوام کا حق تسلیم کریں اور سیاسی قیادت کے سروں پر بٹھائے گئے لینٹ افسران کی اجارہ داری ختم کرنے میں کردار ادا کریں۔ https://stateviews.pk/365766/

facebook.com

Quiz

NEAR Ali Shahnawaz, a human rights activist, endears Kashmiris’ struggle.